مسعود منور

زمرہ: شاعری

غزل

23 May 2018 Comments Off on غزل

زندگی کی کتاب پیش کرو شاعرو ! اپنے خواب پیش کرو حشر کا سائرن بجا کہ بجا عمر بھر کا حساب پیش کرو لاؤ سب اپنی اپنی فردِ عمل اپنا اپنا جواب پیش کرو کس نے کیا کھویا کس نے کیا پایا دشتِ جاں کے سراب پیش کرو چشم و مژگاں کے بادہ خانے سے اپنی اپنی شراب پیش کرو سب کو محبوب ہی سمجھ کے ملو سب کو دل کا گلاب پیش کرو رب کے در پر دھمال میں مسعود رقصِ چنگ و رباب پیش کرو ، ، ، مسعود مُنّور ۔ ۔ ۔

مینارِ پاکستان کی لوحوں پر رقم میرا، ا شک نامہ

25 April 2018 Comments Off on مینارِ پاکستان کی لوحوں پر رقم میرا، ا شک نامہ

مینارِ پاکستان کی لوحوں پر رقم میرا، ا شک نامہ ۲۳ مارچ کی باز گشت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عجیب باغوں کی سر زمیں ہے جسے میرے خواب سینچتے ہیں یہ خواب صحرا کی گلبدن داستاں سراؤں کی فاختائیں یہ منجمد فاختائیں ، جیسے حنوط لمحوں کے زرد تابوت زرد سورج کی نیلی بارش میں کانپتے ہیں یہ باغ گوتم کے گیان کی روشنی کے برگد یہ قافلوں کے شرار آثار گھڑ سواروں کی برق رفتار یورشوں میں گھرے ہوئے ہیں یہ باغ اِس عہد کے اندھیروں کے سُرخ باغی ہیں جن کے نعروں سے آسمانوں میں جا بجا در سے بن گئے ہیں یہ باغ یلغار بستیاں ہیں جہاں کے شہری ، غبارِ صحرا میں مورچوں کی مسہریوں پر ، تمام شب یوں گزارتے ہیں کہ جیسے اصحابِ کہف نیندوں کے معبدوں میں تلاوت و ذکر کر رہے ہوں یہ باغ زیرِ زمیں گھروں کے عجیب پر پیچ سلسلے ہیں یہ گھر ہیں جن کی چھتوں ، مُنڈیروں پہ کالے بارود کے دھوئیں کی سیاہ بیلیں چڑھی ہوئی ہیں یہاں دھماکوں کے پھول کھلتے ہیں چار جانب ، بموں کے گملوں میں موت کی ناز بُو مہکتی ہے جھاڑیوں سے صدائیں اآتی ہیں اے زمیں زاد آفتابوں کی نسلِ تازہ یہ قتل و غارت گری تو دھرتی کا کینسر ہے دیارِ پنجاب اور سندھ کے مکینو! میرے بلوچو ، میرے پٹھانو! میں دہشتوں کے کڑے سفر میں تمہارا برسوں سے ہم سفر ہوں میں دلقِ “لا تفسدو” میں لپٹا تمام رستوں میں جل رہا ہوں میں خانہ جنگی میں مبتلا بستیوں کا زائر میں نفسا نفسی کا بوڑھا قیدی… مزید »

مینارِ پاکستان کی لوحوں پر رقم میرا، ا شک نامہ ۲۳ مارچ کی باز گشت ۔

20 March 2018 Comments Off on مینارِ پاکستان کی لوحوں پر رقم میرا، ا شک نامہ ۲۳ مارچ کی باز گشت ۔

مینارِ پاکستان کی لوحوں پر رقم میرا، ا شک نامہ ۲۳ مارچ کی باز گشت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عجیب باغوں کی سر زمیں ہے جسے میرے خواب سینچتے ہیں یہ خواب صحرا کی گلبدن داستاں سراؤں کی فاختائیں یہ منجمد فاختائیں ، جیسے حنوط لمحوں کے زرد تابوت زرد سورج کی نیلی بارش میں کانپتے ہیں یہ باغ گوتم کے گیان کی روشنی کے برگد یہ قافلوں کے شرار آثار گھڑ سواروں کی برق رفتار یورشوں میں گھرے ہوئے ہیں یہ باغ اِس عہد کے اندھیروں کے سُرخ باغی ہیں جن کے نعروں سے آسمانوں میں جا بجا در سے بن گئے ہیں یہ باغ یلغار بستیاں ہیں جہاں کے شہری ، غبارِ صحرا میں مورچوں کی مسہریوں پر ، تمام شب یوں گزارتے ہیں کہ جیسے اصحابِ کہف نیندوں کے معبدوں میں تلاوت و ذکر کر رہے ہوں یہ باغ زیرِ زمیں گھروں کے عجیب پر پیچ سلسلے ہیں یہ گھر ہیں جن کی چھتوں ، مُنڈیروں پہ کالے بارود کے دھوئیں کی سیاہ بیلیں چڑھی ہوئی ہیں یہاں دھماکوں کے پھول کھلتے ہیں چار جانب ، بموں کے گملوں میں موت کی ناز بُو مہکتی ہے جھاڑیوں سے صدائیں اآتی ہیں اے زمیں زاد آفتابوں کی نسلِ تازہ یہ قتل و غارت گری تو دھرتی کا کینسر ہے دیارِ پنجاب اور سندھ کے مکینو! میرے بلوچو ، میرے پٹھانو! میں دہشتوں کے کڑے سفر میں تمہارا برسوں سے ہم سفر ہوں میں دلقِ “لا تفسدو” میں لپٹا تمام رستوں میں جل رہا ہوں میں خانہ جنگی میں مبتلا بستیوں کا زائر میں نفسا نفسی کا بوڑھا قیدی… مزید »

ویک اینڈ پوئیٹری

22 January 2018 Comments Off on ویک اینڈ پوئیٹری

ویک اینڈ پوئٹری جھوٹ اور کفر کو اللہ کا پیغام سمجھنے لگتے ہو ہر مُلآ کے خُطبے کو الہام سمجھنے لگتے ہو تم کیا جانو ، تم کیا سمجھو کون محمد ﷺ ہیں لوگو تم تو دہشت گردی کو اسلام سمجھنے لگتے ہو تم ہو کتنے بھولے بھالے ، تم ہو کتنے سادہ لوح آئی ایم ایف کے قرضوں کو انعام سمجھنے لگتے ہو خضر نہیں ہے کوئی ان میں راہ نما بھی کوئی نہیں تم کیوں ہر اک گیدڑ کو ضرغام سمجھنے لگتے ہو تم جو ہمیشہ بچتے رہے ہو فرض اور ذمہ داری سے محنت اور مشقت کو آلام سمجھنے لگتے ہو موت ہے ایک ٹرانزٹ لاؤنج ، تم کو آگے جانا ہے تم چھوٹے سے وقفے کو انجام سمجھنے لگتے ہو بڑے ہی پنسار ی بنتے ہو ، لیکن تم بھی تو مسعود کڑوے تخمِ حنظل کو بادام سمجھنے لگتے ہو ۔ ۔ ۔ مسعود مُنّور ۔ ۔ ۔

دؔکھل

13 April 2017 Comments Off on دؔکھل

چور تے کُتّی رل مل لُٹدے اج کل پنڈاں تھانواں نوں جاندی واری لہو نال رنگدے، کڑمے، شہر گراواں نوں ۔۔۔۔ میری تلی تے بلدا دیوا، گلمے دے وچ سورج اے آن، بجھان، تے میں وی ویکھاں ، للکر مار ہواواں نوں ۔۔۔۔ تسے تے کلر دے مارے وِگھے پیوئیساں امرت نال میں وی پنڈوں نکل پیا ہاں لے کے نال چنہاواں نوں ۔۔۔۔ وچ مسیتاں رب بن بیہندے، ورقہ پڑھ کے پوتھی دا وعظ سنے میں دفن کریساں منبر دیاں خُداواں نوں ۔۔۔۔۔ دین نوں ویچ کے کھا بیٹھے ہو، حشر حساب تاں ہونا اے ایہناں نوں پھینٹی لانی اے، ٹُنگ لوو ہُن باہواں نوں ۔۔۔۔۔ ایہناں دی تاں قربانی وی جائز نہیں شریعت وچ کوہ چھڈ بُڈھیاں ڈنگراں نوں، ایہناں کھاگھڑ مجھاں گاواں نوں ۔۔۔۔ غزہ دی پٹی نوں لگی اگ، بجھی نہیں سمندر توں رب اسماناں تے بیٹھا اے ، ٹالے کیویں بلاواں نوں ۔۔۔۔۔ ہُن اولاد وی ماں پیاں کولوں پیار نہیں دھن منگدی اے لوبھ دی اگ نکھیڑ گئی اے سکیاں بھین بھراواں نوں ۔۔۔۔ اُجڑیاں باغاں دے پٹواری ، لگ گئے نی گالہڑ مسعود ڈیناں آکے مل لیا اے سنجیاں پئیاں سراواں نوں ۔۔۔۔۔