جہاں لوگ نفسیاتی غلام ، دانشور بکاؤ بکرے ، صحافی اور اینکر لفافے ، اساتذہ نقل کروانے والے مجہول اور وکیل قانون کے چھابڑی فروش ہوں وہاں حکمران ادارے ،( ایجنسیاں جو بے حس ہیں مگر حساس کہلاتی ہیں )، سیاسی اور مذہبی تاجروں سے ملی بھگت کی پالیسی پر گامزن رہتی ہیں ۔ ایسی ریاستیں قوموں کی آماجگاہ نہیں ہوتیں ، بلکہ مظلوموں کی وہ بھیڑ ہوتی ہیں ، جس کے ہاتھوں قانون کی حکمرانی دم توڑ دیتی ہے اور مذہب وفات پا جاتا ہے ۔ اس وقت وہ فلمی گیت یاد آتا ہے :
جائیں تو جائیں کہاں
جی ہاں ، میں مایوسی کی باتیں کرتا ہوں ۔ میں مجرم ہوں ۔ لیکن پچھلے ستر سال کی تاریخ نے مجھے اس مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا ۔ میں نے پاکستان بنتے بھی دیکھا اور ٹوٹتے بھی اور اب اس کو مقتل بنے دیکھا رہا ہوں ۔ یہ اسلامی اخلاقی قدروں کی سب سے بڑی کربلا ہے