یہ نوائے صبح گاہی
یہ گُل رُخاں مجھے بہرِ ثواب دیکھتے ہیں
شبوں کو نیند میں میرے ہی خواب دیکھتے ہیں
میں حرف و صوت کا مجذوب ہوں مگر پھر بھی
وہ آنکھ بھر کے مجھے بے حساب دیکھتے ہیں
وہ میکدے کے دریچے میں بیٹھ کر شب بھر
لبوں کے کُنج میں بھر کر شراب دیکھتے ہیں
میں جب بھی پاس سے گزروں تو عاکفانِ حرم
میں آدمی ہوں کہ کوئی کتاب ، دیکھتے ہیں
شکار کرتا ہوں شب کو میں جب ستارا کوئی
تو مجھ کو دور سے سارے عقاب دیکھتے ہیں
مری جودلقِ دریدہ ہے اُس کو حسرت سے
تمام شہر کے دولت مآب دیکھتے ہیں
یہ کون باغ میں اُترا ہے دیکھنا مسعود
بڑے ہی عجز سے جس کو گلاب دیکھتے ہیں
۔ ۔ ۔ مسعود مُنّور ۔ ۔ ۔