ازرہِ التفات ۔ ۔ ۔
لا ، مرے کشکول میں دل ڈال دے
ہے سخی ، دریا میں ساحل ڈال دے
حشر اٹھے گا جو میں نکلا کہیں
تو مری چوکھٹ پہ منزل ڈال دے
ہجر بھی اِک رقص ہے اے ہم بدن!
ہجر کے پاؤں میں پائل ڈال دے
لے ، بچھڑنے کا گجر بجنے لگا
ناقہ ء فرقت پہ محمل ڈال دے
مسندیں خالی ہیں اہلِ علم کی
خیر سے دو چار جاہل ڈال دے
تم سے یہ کس نے کہا تھا اے فلک!
ہر نگر میں فتنہ ء گِل ڈال دے
اِس طرف مسعود ، مُلّا اُس طرف
بیچ میں اب کوئی کامل ڈال دے
