دیباچہ ء ہجر
جہاں نورد ہوں ، میرا وطن نہیں کوئی
سوائے حمد و ثنا پاس دھن نہیں کوئی
زبانِ اشک میں آنکھوں سے بات کرتا ہوں
بجز سکوت لبوں پر سُخن نہیں کوئی
میں خاک زاد ہوں ، مٹّی کے ساتھ مٹّی ہوں
مرے نصیب میں تن اور من نہیں کوئی
حرا میں لکھا گیا وہ زمین کا آئین
خُدا کی بات ہے تخمین و ظن نہیں کوئی
تری فقہ ، تری تفسیر اور ترے خُطبے
ریا و کبر کا ناٹک ہیں فن نہیں کوئی
فقط پرانے فسانے ہیں ، ورنہ اِس یُگ میں
اویس کوئی نہیں اور قرن نہیں کوئی
عطا کیا ہے خُدا نے مجھے مہاجر کیمپ
زمیں پہ جس سے نرالا چمن نہیں کوئی
میں اوسلو کی ردا میں پنہ گزین ہوا
کہ ناروے سے نرالا سجن نہیں کوئی
قلم کی نوک سے مسعود کاٹتا ہوں پہاڑ
خُدا کا مجھ سے کھرا کوہکن نہیں کوئی
۔ ۔ ۔ ۔ مسعود مُنّور ۔۔۔ جون ، اوسلو۱۹۸۴