خواہشیں کیا کیا
عمر بھر ایک سا کب ، علم و ادب چاہتا ہوں
اپنی تردید میں کردیتا ہوں جب چاہتا ہوں
مجھ کو ڈس لیتے ہیں اعمال مجھے اِن سے بچا
میں تو پڑھنے کے لیے صرف کُتب چاہتا ہوں
میکدے میں مجھے دفناؤ گے اعزاز سے تم
بعد مرنے کے بھی پب اور کلب چاہتا ہوں
رہنے کو قصرِ شہی ، سیوا کو حور و غلمان
جو بھی جنّت میں ملا کرتا ہے سب چاہتا ہوں
فتنہ ء عشق ہو یا شادی سی بربادی ہو
تجھ سے ملنے کا کوئی ایک سبب چاہتا ہوں
خواہشِ نفس کی شدت سے ہوں میں سوختہ جاں
جتنی جلدی ہو ترے عارض و لب چاہتا ہوں
مطمئن وعدہ ء ف ردا پہ کہاں ہو مسعود
کل نہیں ، آج نہیں ، تجھ کو میں اب چاہتا ہوں
۔ ۔ ۔ مسعود مُنّور ۔ ۔ ۔