بِلوری اکھ دا قصیدہ
۔ ۔ ۔ ۔ لمّی نظم ” کُڑی الکُڑیات ” دا اک بند ۔ ۔ ۔ ۔تیریاں بُلھیاں ، چن دا نخرہتیری اکھ دا موسم وکھراتیرا پنڈا کنک دا سونامیں سونے دا ہار پروناموتیے دے پھُلاں دی ٹاہنیتُوں امبیاں دے باغ دی رانیزُلفاں وچوں تیریاں گلھاںکالے ہڑ وچ رت دیاں چھلاںتیری وینڑیں دے وچ ونگاںرب کولوں میں ہور کیہ منگاںونگاں چھن چھن چھنکی جاونلنگھیاں ویلا یاد کراونہائے ہائے گلھاں دے وچ ٹوئیاںتیری نتھ تے صدقے ہوئیاںتیرا روپ سروپ غضب داایہہ لمبو کسے ٹھنڈی اَگ داتیرا میوہ مٹھا لگداایہہ سُفناں مینوں ڈِٹھا لگداتوں کُڑی الکُڑیات ایں میریتوں سدھراں دی رات ایں میری۔ ۔ ۔ مسعود مُنّور ۔ ۔ ۔ ۔
حمد
میرا رب العالمیں ہے میری شہ رگ کے قریبمیں طواف اپنا کروں تو حج کا ملتا ہے ثوابعجز سے گردن کو اپنی سات چکر جب بھی دوںآسماں دیتا ہے طاعت کا محبت سے جواب۔ ۔ ۔ مسعود مُنّور ۔ ۔ ۔
حمد
میرا رب العالمیں ہے میری شہ رگ کے قریبمیں طواف اپنا کروں تو حج کا ملتا ہے ثوابعجز سے گردن کو اپنی سات چکر جب بھی دوںآسماں دیتا ہے طاعت کا محبت سے جواب۔ ۔ ۔ مسعود مُنّور ۔ ۔ ۔
غزل
زندگی کی کتاب پیش کرو شاعرو ! اپنے خواب پیش کرو حشر کا سائرن بجا کہ بجا عمر بھر کا حساب پیش کرو لاؤ سب اپنی اپنی فردِ عمل اپنا اپنا جواب پیش کرو کس نے کیا کھویا کس نے کیا پایا دشتِ جاں کے سراب پیش کرو چشم و مژگاں کے بادہ خانے سے اپنی اپنی شراب پیش کرو سب کو محبوب ہی سمجھ کے ملو سب کو دل کا گلاب پیش کرو رب کے در پر دھمال میں مسعود رقصِ چنگ و رباب پیش کرو ، ، ، مسعود مُنّور ۔ ۔ ۔
مینارِ پاکستان کی لوحوں پر رقم میرا، ا شک نامہ
مینارِ پاکستان کی لوحوں پر رقم میرا، ا شک نامہ ۲۳ مارچ کی باز گشت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عجیب باغوں کی سر زمیں ہے جسے میرے خواب سینچتے ہیں یہ خواب صحرا کی گلبدن داستاں سراؤں کی فاختائیں یہ منجمد فاختائیں ، جیسے حنوط لمحوں کے زرد تابوت زرد سورج کی نیلی بارش میں کانپتے ہیں یہ باغ گوتم کے گیان کی روشنی کے برگد یہ قافلوں کے شرار آثار گھڑ سواروں کی برق رفتار یورشوں میں گھرے ہوئے ہیں یہ باغ اِس عہد کے اندھیروں کے سُرخ باغی ہیں جن کے نعروں سے آسمانوں میں جا بجا در سے بن گئے ہیں یہ باغ یلغار بستیاں ہیں جہاں کے شہری ، غبارِ صحرا میں مورچوں کی مسہریوں پر ، تمام شب یوں گزارتے ہیں کہ جیسے اصحابِ کہف نیندوں کے معبدوں میں تلاوت و ذکر کر رہے ہوں یہ باغ زیرِ زمیں گھروں کے عجیب پر پیچ سلسلے ہیں یہ گھر ہیں جن کی چھتوں ، مُنڈیروں پہ کالے بارود کے دھوئیں کی سیاہ بیلیں چڑھی ہوئی ہیں یہاں دھماکوں کے پھول کھلتے ہیں چار جانب ، بموں کے گملوں میں موت کی ناز بُو مہکتی ہے جھاڑیوں سے صدائیں اآتی ہیں اے زمیں زاد آفتابوں کی نسلِ تازہ یہ قتل و غارت گری تو دھرتی کا کینسر ہے دیارِ پنجاب اور سندھ کے مکینو! میرے بلوچو ، میرے پٹھانو! میں دہشتوں کے کڑے سفر میں تمہارا برسوں سے ہم سفر ہوں میں دلقِ “لا تفسدو” میں لپٹا تمام رستوں میں جل رہا ہوں میں خانہ جنگی میں مبتلا بستیوں کا زائر میں نفسا نفسی کا بوڑھا قیدی… مزید »
مینارِ پاکستان کی لوحوں پر رقم میرا، ا شک نامہ ۲۳ مارچ کی باز گشت ۔
مینارِ پاکستان کی لوحوں پر رقم میرا، ا شک نامہ ۲۳ مارچ کی باز گشت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عجیب باغوں کی سر زمیں ہے جسے میرے خواب سینچتے ہیں یہ خواب صحرا کی گلبدن داستاں سراؤں کی فاختائیں یہ منجمد فاختائیں ، جیسے حنوط لمحوں کے زرد تابوت زرد سورج کی نیلی بارش میں کانپتے ہیں یہ باغ گوتم کے گیان کی روشنی کے برگد یہ قافلوں کے شرار آثار گھڑ سواروں کی برق رفتار یورشوں میں گھرے ہوئے ہیں یہ باغ اِس عہد کے اندھیروں کے سُرخ باغی ہیں جن کے نعروں سے آسمانوں میں جا بجا در سے بن گئے ہیں یہ باغ یلغار بستیاں ہیں جہاں کے شہری ، غبارِ صحرا میں مورچوں کی مسہریوں پر ، تمام شب یوں گزارتے ہیں کہ جیسے اصحابِ کہف نیندوں کے معبدوں میں تلاوت و ذکر کر رہے ہوں یہ باغ زیرِ زمیں گھروں کے عجیب پر پیچ سلسلے ہیں یہ گھر ہیں جن کی چھتوں ، مُنڈیروں پہ کالے بارود کے دھوئیں کی سیاہ بیلیں چڑھی ہوئی ہیں یہاں دھماکوں کے پھول کھلتے ہیں چار جانب ، بموں کے گملوں میں موت کی ناز بُو مہکتی ہے جھاڑیوں سے صدائیں اآتی ہیں اے زمیں زاد آفتابوں کی نسلِ تازہ یہ قتل و غارت گری تو دھرتی کا کینسر ہے دیارِ پنجاب اور سندھ کے مکینو! میرے بلوچو ، میرے پٹھانو! میں دہشتوں کے کڑے سفر میں تمہارا برسوں سے ہم سفر ہوں میں دلقِ “لا تفسدو” میں لپٹا تمام رستوں میں جل رہا ہوں میں خانہ جنگی میں مبتلا بستیوں کا زائر میں نفسا نفسی کا بوڑھا قیدی… مزید »
ویک اینڈ پوئیٹری
ویک اینڈ پوئٹری جھوٹ اور کفر کو اللہ کا پیغام سمجھنے لگتے ہو ہر مُلآ کے خُطبے کو الہام سمجھنے لگتے ہو تم کیا جانو ، تم کیا سمجھو کون محمد ﷺ ہیں لوگو تم تو دہشت گردی کو اسلام سمجھنے لگتے ہو تم ہو کتنے بھولے بھالے ، تم ہو کتنے سادہ لوح آئی ایم ایف کے قرضوں کو انعام سمجھنے لگتے ہو خضر نہیں ہے کوئی ان میں راہ نما بھی کوئی نہیں تم کیوں ہر اک گیدڑ کو ضرغام سمجھنے لگتے ہو تم جو ہمیشہ بچتے رہے ہو فرض اور ذمہ داری سے محنت اور مشقت کو آلام سمجھنے لگتے ہو موت ہے ایک ٹرانزٹ لاؤنج ، تم کو آگے جانا ہے تم چھوٹے سے وقفے کو انجام سمجھنے لگتے ہو بڑے ہی پنسار ی بنتے ہو ، لیکن تم بھی تو مسعود کڑوے تخمِ حنظل کو بادام سمجھنے لگتے ہو ۔ ۔ ۔ مسعود مُنّور ۔ ۔ ۔
مایوسی کی باتیں
جہاں لوگ نفسیاتی غلام ، دانشور بکاؤ بکرے ، صحافی اور اینکر لفافے ، اساتذہ نقل کروانے والے مجہول اور وکیل قانون کے چھابڑی فروش ہوں وہاں حکمران ادارے ،( ایجنسیاں جو بے حس ہیں مگر حساس کہلاتی ہیں )، سیاسی اور مذہبی تاجروں سے ملی بھگت کی پالیسی پر گامزن رہتی ہیں ۔ ایسی ریاستیں قوموں کی آماجگاہ نہیں ہوتیں ، بلکہ مظلوموں کی وہ بھیڑ ہوتی ہیں ، جس کے ہاتھوں قانون کی حکمرانی دم توڑ دیتی ہے اور مذہب وفات پا جاتا ہے ۔ اس وقت وہ فلمی گیت یاد آتا ہے : جائیں تو جائیں کہاں جی ہاں ، میں مایوسی کی باتیں کرتا ہوں ۔ میں مجرم ہوں ۔ لیکن پچھلے ستر سال کی تاریخ نے مجھے اس مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا ۔ میں نے پاکستان بنتے بھی دیکھا اور ٹوٹتے بھی اور اب اس کو مقتل بنے دیکھا رہا ہوں ۔ یہ اسلامی اخلاقی قدروں کی سب سے بڑی کربلا ہے
بالآخر ۔ ۔ ۔
اُس نے مجھ کو اور میں نے اُس کو سیدھا کردیا آسماں ہنستا رہا ہم پر ، کہ یہ کیا کردیا سامنے ، اپنی اَنا کے بُت تھے جب وقتِ صلوٰۃ بُت کدے کا نام مسجد رکھ کے سجدہ کردیا حُکم کا بندہ ہوں رہتا ہوں خُدا کے حُکم میں جیسا جیسا رب نے چاہا ، ویسا ویسا کردیا نفس کے جتنے تھے بل ، میں نے نکالے عجز سے کُتے کی دُم کو بڑی محنت سے سیدھا کردیا معجزہ مجھ کو عطا ، اسمِ محبت سے ہوا میں نے مُردہ دل کو دیکھو ، کیسے زندہ کر دیا یہ تو اُس بُت کی مسیحائی تھی جس نے دفعتاؔ آنکھ کے لیزر سے مجھ روگی کو اچھا کردیا مُجھ کو اُس فن کار سے مسعود ہے ربطِ خفی جس نے ساگر کو لپیٹا اور قطرہ کردیا ۔ ۔ ۔ مسعود مُنّور ۔ ۔ ۔
کس کو ہے کس سے محبت ، کون کس کا یار ہے
کس کو ہے کس سے محبت ، کون کس کا یار ہے زندگی اب ، اجنبی لوگوں کا اک تہوار ہے شاعروں کی غزلیہ اوقات ، مت پوچھو میاں شاعری کا شور ، نفرت کا عذاب النار ہے کتنی اُلجھن ہو رہی ہے کس قدر بے چین ہوں تیری گپ شپ سے تہی یہ تیسرا اتوار ہے خالی ہے ساغر اُداسی کا کفن پہنے ہوئے اور تنہائی کا ساتھی ، شام کا اخبار ہے تیری صحبت کی وہ دستاویز تھی سب سے الگ تجھ کو کھو کر سب کتابوں سے یہ دل بیزار ہے جان کھا جاتے ہیں ٹی وی کے یہ باسی اشتہار ایسا لگتا ہے کہ سارا میڈیا بیمار ہے تو نے جو وعدے کیے مسعود سے وہ کیا ہوئے سچ بتاؤں تو بھی میری جان کا آزار ہے ۔ ۔ ۔ مسعود مُنّور ۔ ۔ ۔